بجھتا بجھتا سا دکھتا ہے یہ چراغ ابھی تک زندہ ہے
ہھول تو سب مُرجھا بھی چکے پر باغ ابھی تک زندہ ہے
چند قطرے ابھی بھی رہتے ہیں اور میری زبان متحرک ہے
نہ اٹھاؤ اسے ابھی رہنے دو یہ ایاغ ابھی تک زندہ ہے
ایک شعر تو کہ لینے دو مجھے دِل میں خییال ایک باقی ہے
وہ فروغ تو بس حسرت ہی رہا یہ فراغ ابھی تک زندہ ہے
آتے ہیں اندھیرے جاتے ہیں یہ تماشہ یوں ہی ہوتا ہے
سورج کو جلنے بجھنےدو یہ چراغ ابھی تک زندہ ہے
تم کس کو ڈھونڈھ نے آئے ہو یہ دِل ہے کہاں معلوم نہیں
وہ جیتا ہے یا مر بھی چکا یہ دماغ ابھی تک زندہ ہے
میں اپنے یار کو پا نہ سکا ایک کھوجی كے پیچھے چلتا ہوں
ایک نقش قدم آتا ہے نظر یہ سراغ ابھی تک زندہ ہے
یہ سراغ ابھی تک زندہ ہے
Did you enjoy the the artible “یہ سراغ ابھی تک زندہ ہے” from Akhtar Jawad on OZOFE.COM? Do you know anyone who could enjoy it as much as you do? If so, don't hesitate to share this post to them and your other beloved ones.
Leave a Reply