گر میری محبت میٹھی ہے میں اسکو منوا لوں گا
آنکھیں اگر جھک بھی گئیں ہونٹوں سے کہلا دوں گا
گالوں گی گواہی مانو گے میں رنگ گلابی لایا ہوں
یہ چہرہ زرا نزدیک تو ہو رنگ شفق بکھرا دوں گا
زلفوں کی گواہی مانو گے یہ پھول ذرا تم ٹانکنے دو
میری گواہی دیں گی انہیں ان شانوں پر بکھرا دوں گا
کیوں ڈرتے ہو چھپتے ہو یہ عشق تو آگ ازل کی ہے
ہے کوئ اگر دنیا میں ابد اسے شعلوں یں پگھلا دوں گا
آنکھوں سے خوشبو پھوٹے گی جانے کیا کیا لوٹے گی
اب کیسے کہوں اور کیا کھ دوں کیا کیا میں لٹوا لوں گے
گھائل کرنا کام ہے گر گچھ اور زرا زخمی کر دو
جب ہاتھوں میں ہاتھ یہ آۓ گا میں چندن سے سہلا لوں گا
اوروں کی گواہی کیا لینا جب چاند سے باتیں ہونے لگیں
میں چپکے سے آجاؤں گا اور دل کو تیرے بہکا دوں گا
کچھ روٹھے روٹھے لگتے ہو ہونٹ سلے اور کان کھلے
لو لکھ دی تم پہ ایک غزل اب باتوں میں بہلا لوں گا
گواہی
Did you enjoy the the artible “گواہی” from Akhtar Jawad on OZOFE.COM? Do you know anyone who could enjoy it as much as you do? If so, don't hesitate to share this post to them and your other beloved ones.
Leave a Reply