اور کیا خواب دیکھ سکتی تھی
آسماں کو وہ تکتی رہتی تھی
تپ كے کندن تو بن گئی تھی وہ
جانے کیا اور چاہتی تھی وہ
لو امڈ آئے کالے بدل بھی
دِل میں اسکے مچی ہے ہلچل بھی
لو چلی وہ ہوا تھرکنے لگی
سوکھی مٹی تھی وہ بھی اڑنے لگی
آندھی بن کر وہ آج اٹھی ہے
پانی برسا تو تھم كے بیٹھی ہے
گندھ گئی وہ برستے پانی میں
ایسا ہوتا ہے بہتے پانی میں
اب وہ مٹی نہیں ہے گڑیا ہے
ساری دنیا میں اسکا چرچا ہے
اب وہ کندن نہیں ہے زیور ہے
وہ صدف ہے کہ جس میں گوہر ہے
دِل میں موتی لیۓ مچلتی ہے
ناچتی گاتی ہےاچھلتی ہے
اسکےارمان ہیں اچھوتے سے
اسکے سپنے ہیں میٹھے میٹھے سے
تم کو معصوم لگ رہی ہے وہ
مجھکو مظلوم لگ رہی ہے وہ
ایسی خوشبو جو مشک ہو نہ سکی
ایسی بارش! وہ خشک ہو نہ سکی
بہ گئی وہ بھی بھتے پانی میں
چل پڑی بس کہیں روانی میں
یہ ہوائیں تو اب بھی گاتی ہیں
آندھیاں تو ابھی بھی آتی ہیں
چڑیا مٹی کی اب نہ اڑتی ہے
ناتو گاتی ہے نا مچلتی ہے
پی كے آنسو وہ مسکراتی ہے
اپنی بپتا مگر سناتی ہے
کیون تمہیں شک ہے اسکی بپتا پر
کچھ ترس کھاؤ پیاسی ممتا پر
اے خدا پانی اس طرح برسے
پھول بن کر وہ پِھر کبھی مہکے
اسکی خوشبو کچھ اس طرح پھیلے
صاف ہو جائیں سارے دِل میلے
اسکی تزئین اب ہو رنگوں سے
ہو اُڑان اسکی اب امنگوں سے
اب کے گڑیا نہیں بنے گی وہ
پھول بن کر کہیں کھلے گی وہ
مٹی کی گڑیا
Did you enjoy the the artible “مٹی کی گڑیا” from Akhtar Jawad on OZOFE.COM? Do you know anyone who could enjoy it as much as you do? If so, don't hesitate to share this post to them and your other beloved ones.
Leave a Reply